حوزہ نیوز ایجنسی|
رحمتہ للعالمین حضرت محمد مصطفٰی صلہ اللہ علیہ والہ وسلم نے بنی نوع انسان کو راہ نجات دکھا کر اسے جینے کا سلیقہ سکھایا۔ مبعوث بہ رسالت ہونے سے پہلے بھی حیات اقدس کا ایک ایک سانس انسانیت کی بقاء اور نظام الٰہی کے قیام کے لیے وقف کردیا۔ اور جب آپ مبعوث بہ رسالت ہوئے تو مشن الٰہی میں ایک نئی جہت پیدا کرکے اس مشن کو کھٹن اور مشکل حالات کے بیچ پایہ تکمیل تک پہنچایا ۔ کفار و مشرکین کی جانب سے ذہنی و جسمانی اذیتوں کا جھال بچھایا گیا لیکن آپ نے پامردی اور بہادری کے سات سامنا کرکے مقصد رسالت حاصل کیا۔
دنیا میں روایت رہی ہےکہ کوئی بھی کام انجام دینے کے بعد اس کا اجر لیا جاتا ہے۔ لیکن اللہ تبارک و تعالٰی نے رسول گرامی اسلام کو اس عظیم الشان کام (لوگوں کی ہدایت و رہبری) کے لیے رسول اسلام(ص) سے مخاطب ہوکر فرما "اے رسول کہہ دیجئے کہ مجھے اجر رسالت نہیں چاہئے سوائے قرابت داروں سے محبت "
صاف لفظوں میں یوں کہا جائے کہ رسول اسلام صلہ اللہ علیہ والہ وسلم نے ہم سے محبت اہلبیت کا تقاضا کیا ہے قرآن و سنت کے رو سے اہل بیت(ع) سے محبت و الفت رکھنا ہمارا فرض ہے کیونکہ ہم اجر رسالت کے مقروض ہیں ۔پس اگر ہم نے اس فریضہ سے منھ موڑ لیا گویا ہم نے قرآن و سنت سے صاف انکار کیا۔لہذا کسی بھی طرح سے مسلمان کا حق نہیں بنتا کہ اپنے آپ کو مسلمان اور امت محمدی(ص) کا دم بھر لیں لیکن محبت اہلبیت سے روگردانی اختیار کریں ۔
کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ مسلمان ہونے کے دعویداروں ن اہلبیت رسول(ص) کے ساتھ کیسا دل دلسوزاور بدترین سلوک کیا۔نادان مسلمان نے ان عظیم الشان الٰہی ہستیوں کی قدر منزلت کتنی کی۔کتنا محبت و عقیدت کا اظہار کیا۔ ہاں یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ بعد از وفات بھی ان عظیم الشان ہستیوں کے ساتھ عداوت اور حسد ،کینہ اور بغض کا سلسلہ تمام نہیں کیا۔
8 شوال 1345 ھجری کا وہ تاریک اور بدنصیب دن اس بات کا بین ثبوت ہے کہ امت اسلامیہ کے صف میں اسلامی لبادہ اوڑھ کر ایک گروہ جو ابوجہل اور یزید ملعون جیسے بدترین،ظالم و فاسق افراد کا کردار آج بھی نبھا رہا ہے۔ ان حالات میں عالم اسلام کے ذمہ داروں اور نام نہاد ٹھیکہ داروں کا ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنا، خاموش رہنا اور ان ملعون ،شیطان اور درندہ صفت افراد کو بھر پور تعاون دینا مسلمان دعویداری کی پول کھولتی ہے اور منافقت کا پردہ فاش کرتا ہے۔
تاریخ شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ صدر اسلام کے عہد میں جنت البقیع مسلمانوں کا ایک اہم اور مقدس مقام شمار ہوتا تھا ۔یہ وہ عظیم المرتبت قطعہ اراضی تھی جہاں رسول اسلام صلہ اللہ علیہ والہ کے آباء و اجداد، اہلبیت الطاہرین ،امہات المومنین،صحابہ،تابعین،علماء اور محدثین کی ایک کثیر تعداد مدفون ہیں ۔جنت البقیع مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کے مشرق سمیت واقع ہے ۔پہلی صدی ہجری سے یہاں مسلمان اپنے اموات کو دفن کرتے آئے ہیں یہ جگہ خود رسول اسلام نے منتخب کی ہے۔
اہل تشیع کے علاوہ اہل تسنن کی تاریخی کتابوں میں بھی اس مقدس مقام کی قدر و منزلت بیان ہوئی ہے ۔شیعہ و سنی مورخین کا اس روایت پر اتفاق ہے کہ رسول اسلام حضرت محمد مصطفٰی صلہ اللہ علیہ والہ وسلم ہر شب جمعہ بقیع جاکر وہاں مدفون افراد کے لیے دعا کرتے تھے۔اس سلسلے میں اور بھی بہت ساری روایتیں موجود ہیں ۔
1205ھ تاریخ کا وہ بدترین دور تھا جب سرزمین حجاز پر ایک ایسا ٹولہ نمودار ہوا جنہوں نے توحید کے نام پر اہلبیت اطہار و اولیائے کرام کی دشمنی کا بیچ بویا ۔ شرک و بدعت کی آڑ میں اہلبیت طاہرین اور اولیائے کرام کے حرموں کو منہدم کیا نہ صرف منہدم کیا بلکہ اس کو اپنے نرغے میں لے کر وہاں فاتحہ پڑھنے دعا و استغفار پر بھی روک لگادی ۔ بوکھلائے ہوئے اس ٹولے نے 1217ھ میں طائف پر چڑھائی کی اور 1220ھ میں مدینہ پر حملہ کرکے روضہ رسول(ص) کو مسمار کرنے کی کوشش کی ۔ سلطنت عثمانی کے سلطان محمود دوم نے مصری گورنر محمد علی پاشاہ کو یہ ٹولہ نابود کرنے کا حکم دیا علی پاشاہ نے اس ٹولے کو 1222ھ میں نابود کیا جس کے بعد مسمار شدہ آثار کو دوبارہ تعمیر کروایا گیا۔
ان درندوں نے ایک مرتبہ پھر اس سرزمین پر سر نکال کر مزار اقدس کو اپنی درندگی کا نشانہ بنایا ۔متعدد بار حملے کیے لیکن 8 شوال 1345ھ کا وہ غمناک اور سیاہ ترین دن جب ایک مرتبہ پھر اس دہشتگرد ٹولے نے جنت البقیع پر بزدلانہ حملہ کرکے ائمہ اطہار کے روضہ اقدس کو مکمل طور مسمار کردیا آٹھ شوال کا یہ دن دہشتگردی کا بدترین دن تھا۔اس دن دہشتگردوں نے رسول اسلام(ص) اور آل رسول کے ساتھ کھل کر عدوات ،حسد اوردشمنی کا اظہار کیا ۔ دہشتگردوں کا یہ اقدام درواقع قرآن و سنت کا صاف انکار تھا ۔اور یہ بزدلانہ حملہ جنگ خندق، احد، بدر، حنین ،جمل اور جنگ خیبر وغیرہ کے بدلہ کی عکاسی کررہا تھا ۔دہشتگردوں کے رگوں میں ان کفار و مشرکین کے خون نے چکر کھایا ۔ جن کفار و مشرکین کو رسول اسلام (ص) اور مولائے کائنات نے ایک ایک کرکے حساب لے کر واصل نار کیا تھا۔
انہدام جنت البقیع کے پیچھے ایک لمبی داستان کارفرما ہے اس کاروائی کے ماسٹر مائنڈ کو دشمنی اگر تھی تو وہ صرف اور صرف خاتون جنت حضرت فاطمہ الزہرا (س) کے گھرانے سے تھی۔ حاسدوں نے خانوادہ اہلبیت کے ساتھ بے انتہا حسد کیا جب جی نہیں بھراتو بے دردی کے ساتھ جنت البقیع کو منہدم کیا۔
افسوس صد افسوس اس ظالم و جابر ٹولے نے جو بھی کیا اسلام کے نام پر کیا۔ توحید کے نام پر نعرہ تکبیر کے ساتھ کیا اور ملت اسلامیہ کے ٹھیکہ داروں نے اپنی بدنصیب آنکھوں سے اس ظلم و بربریت کا نظارہ کیا ۔کسی نے آہ تک نہ کیا۔ خادم الحرمین الشرفین کے لمبے چوڑے القاب والے ٹھیکہ داروں نے پچاسی سالوں میں خاتون جنت لخت جگر رسول اکرم (ص) کے مرقد اطہر پر چراغ تک نہ جلانے دیا ۔
غور طلب بات ہے کہ پچاسی سال مکمل ہونے کے بعد بھی جنت البقیع پر حرم مطہر تعمیر نہ ہوسکا۔ مسلمانوں کی غیرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سرزمین وحی پر عالیشان مندر تعمیر کیے گئے لیکن رسول اسلام کی بیٹی رسول کا نواسے کھلے آسمان تلے مسلمانوں کی بے غیرتی اور ظالمانہ رویہ پر افسوس کا اظہار کررہے ہیں۔ اگر وائٹ ہاوس پر حملہ ہورہا ہے تو ان بے غیرت مسلمانوں کو برداشت نہیں ہورہا ہے اس موقعہ پر شیطان بزرگ کے ساتھ ہمدردی و یکجہتی کا اظہار کررہے ہیں لیکن جنت البقیع کی ویرانی پر خوش و خرم نظر آرہے ہیں ۔
آج سے چند سال قبل مشرق وسطیٰ میں داعش نامی دہشتگرد تنظیم کا وجود عمل میں لایا گیا یہ 8 ربیع الاول 1345ھ کے دہشتگردی کی ایک کڑی ہے بدنام زمانہ داعش عراق و شام میں انہدام جنت البقیع کی روایت دہرانے کے لیے بنایا گیا تھا۔ اس کا واضع ثبوت حضرت حجر بن عدی ہے جس کا مرقد مسمار کرکے ان لعینوں نے صحابی رسول کو قبر سے نکالا۔ اسی طرح دیگر مقامات مقدسہ کی بے حرمتی کی گئی۔ لیکن ایران عراق اور شام کی سرزمینیں، سرزمین سعودی نہیں تھی یہاں اسلام کے جانباز سپاہیوں نے انہیں چن چن کر ڈھیر کردیا اور ناپاک عزائم رکھنے والے اس گروہ کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر صفایا کیا۔
عزیزان محترم یوم انہدام جنت البقیع ہے یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں بلکہ اس دن دہشتگردوں رسول اللہ صلہ اللہ علیہ والہ وسلم کے قلب کو مجروح کردیا۔ رسول کی لخت جگر رسول کا نواسہ اور دیگر ائمہ اطہار کی کھلے آسمان تلے صدائے استغاثہ بلند کررہے ہیں اس دن تمام فروعی اختلافات کو بالائے طاق رکھ دی متحد ہونے کی ضرورت ہے اور متحد ہوکر جنت البقیع پر حرم تعمیر کرنے لیے مطالبہ کرنا ہے اس کے لیے عالمی سطح پر ریفرنڈم کروانے کی ضرورت ہے اور آل سعود پر دباؤ ڈال کر عالیشان حرم تعمیر کروانا ہے ۔
"نصر من اللہ و فتح قریب"
تحریر: مجتبٰی ابن شجاعی
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔